Orhan

Add To collaction

نفرت 

نفرت 
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر9
آخری قسط

عشرت انسپیکٹر کی مدد سے گھر واپس آئی انسپیکٹر گھر کے اندر تک اس کے ساتھ آیا ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا ؟ گھر میں اتنا رش کیوں تھا ، کوئی آ رہا تھا کوئی جا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ انسپیکٹر کے ساتھ چلتی ہوئی آگے بڑھی اور آتے جاتے لوگوں کو بھی دیکھ رہی تھی اس نے سفید دوپٹے کے کنارے سے منہ کو تھوڑا چھپایا ہوا تھا ۔۔۔۔ کچھ اور آگے بڑھی تو اسے اندر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔۔
کسی کی فوتگی ہوئی تھی  ۔۔۔۔ مگر کون ۔۔۔۔ اس کے قدموں میں جیسے جان ہی نہ ہو ۔۔۔ وہ تھوک نگل کر گھبرائی ہوئی آگے جا رہی تھی  ۔۔۔۔ امی نرمین کو تو کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔ کہیں آغا جان انہیں ۔۔۔۔ اس کے ذہن میں کئی خیالات آ رہے تھے یا تائی جان کو کچھ ہو گیا وہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں ۔۔۔۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔ اپنے بے جان قدموں کو گھسیٹتی وہ گھر کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔  پاس سے چند عورتیں افسوس کرتی ہوئی گزریں ۔۔۔۔۔
" بیچارہ الیکشن میں ہارنے کا صدمہ ہی نہیں برداشت کر پایا ۔۔۔۔ " اس کے چلتے قدم رک گئے ۔۔۔ 
" سکندر ۔۔۔۔ " اس کے ذہن میں یہ نام بازگشت کی طرح گونجنے لگا ۔۔۔۔ سکندر نے خودکشی کر لی ۔۔۔۔
اس کے چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ 
 مگر اس نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔ ، کیا اس سے ہار برداشت نہ ہوئی ۔۔۔۔ اس کی وحشت اور گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا۔۔۔۔ وہ جس کسی کی بھی موت کا سوچ رہی تھی لیکن اس نے سکندر کا نہیں سوچا تھا وہ اس قدر بزل انسان تھا کہ ہار بھی برداشت نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آگے جا رہی تھی  ۔۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا سکندر اتنا بڑا صدمہ برداشت نہیں کر پائے گا ۔۔۔۔ حیرت اور صدمے کی ملی جلی کیفیت  میں وہ گھر کے اندر پہنچی ۔۔۔ جہاں عورتوں کا رش تھا ۔۔۔ تائی جان بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں  ۔۔۔ تایا جان بھی رو رہے تھے ۔۔۔۔
وہ سکندر کے والدین تھے اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔  دوسری طرف امی اور نرمین اداس سی شکل بنائے بیٹھی تھیں ۔۔۔۔ اس کا دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا اسے ڈر تھا کہیں اس کی دھڑکن رک نہ جائے ۔۔۔۔۔ 
" سکندر مر گیا ۔۔۔۔ " 
صدمے سے اس نے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔ کہانی کا وہ اختتام جو اس نے سوچا بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔ 
" یہ کیسے ہو سکتا ہے اتنی جلدی وہ کیسے مر سکتا ہے ابھی تو بہت حساب باقی تھا ۔۔۔۔ "
 اس میں آگے جانے کی ہمت نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ سارے گھر والے اسے دیکھ چکے تھے ۔۔۔۔  سامنے جنازہ رکھا ہوا تھا اور جنازے کے پاس عورتیں ڈیرہ ڈالے رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ اپنی بے جان قدموں کو گھسیٹ کر آگے بڑھی۔۔۔  لاش پر کفن تھا ۔۔  وہ کچھ پل کھڑی اس کی لاش کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔  کیا اسے اس شخص کی موت پر رونا چاہیے تھا افسوس کرنا چاہئے تھا یا اپنے برسوں پرانے دشمن کی موت پر ہنسنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔  لیکن وہ تو کچھ بھی محسوس نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔۔
کسی نے لاش پر سے کفن ہٹایا ۔۔ اسے لگا وہ نہیں دیکھ پائے گی ۔۔۔۔ اس نے چہرہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔۔ اسی پل وہ خود سے انکشاف کر رہی تھی کہ سکندر سے اسے جتنی ہی نفرت سہی لیکن وہ اس کا آخری دیدار نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ لیکن اس نے چہرہ گھمایا اور دیکھا ۔۔۔۔۔   اور ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔ کہانی کا اختتام بدل گیا ۔۔۔۔۔  پوری کائنات جیسے رک گئی تھی ۔۔۔۔
وہ لاش سکندر کی نہیں آغا جان کی تھی ۔۔۔۔ وہ صدمے سے انہیں دیکھتی رہی جیسے سانسیں پھر سے جڑنے لگی تھیں ۔۔۔۔  وہ تیزی سے بھاگ کر جنازے کے پاس آئی تھی ۔۔۔
" بیچارے نے آج صبح ہی خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی ۔۔۔ الیکشن میں ہار کو انہوں نے دل پہ ہی لے لیا ۔۔۔ " 
ایک عورت دوسرے عورت کو بتا رہی تھی ۔۔۔۔ اسے آغا جان کی موت کی خوشی نہیں تھی بھلے ہی ان کی زندگی میں اسے ان سے کچھ شکوے ، کچھ اختلاف رہے ہوں لیکن وہ مردہ لوگوں سے دشمنی نبھانے کی قائل نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
آج آغا جان کی زندگی کا سورج ڈوب چکا تھا ہمیشہ حکمرانی کرنے والا شخص آج چار کندھوں کا محتاج تھا ۔۔۔  عورتوں پر رعب ، حکمرانی ، سب یہیں رہ گیا ۔۔۔ بچپن سے جو آغا جان کی حکومت دیکھ رہی تھی آج اس کا بھی اختتام ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
سامنے سکندر آنکھوں میں آنسو چھپائے کھڑا تھا ۔۔۔ اس نے ایک پل کے لئے اسے دیکھا پھر اس کا دل جانے کچھ عجیب انداز میں کیوں دھڑکا ۔۔۔۔ وہ اس کی دشمن تھی اسے زندہ دیکھ کر اس کو غم ہونا چاہئے تھا تو وہ خوش کیوں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
آغا جان کے جنازے کو گھر کے آنگن سے نکال کر باہر لے گئے   ، حکمرانی کی ایک اور کہانی منوں مٹی تلے چلی گئی کسی اور کی بادشاہت کا سورج ڈوب گیا ۔۔۔۔ بے شک زوال ہے ہر عروج کو ۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________
ناصر حسین کے مزید ناولز___
دسمبر لوٹ آنا تم_____
 دلہن _____
ایمان اور عشق __
برف کے پھول  ___ 
دل کے دو کنارے ___ 
دل توڑنا منع ہے ____ 
میرا دل میرا نہیں ____ 
____________________________________________
آغا جان کی موت کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا ۔۔۔ زندگی ایک بار پھر اسی روٹین میں آ چکی تھی لیکن بہت کچھ بدل چکا تھا ۔۔۔  آغا جان کی موت کے بعد تایا جان بالکل سنجیدہ ہو چکا تھا اپنا رعب و دبدبہ سب کچھ آغا جان ساتھ لے کر چلے گئے تھے ۔۔۔۔ انہیں شاید آغا جان کی موت کا کچھ زیادہ ہی دکھ تھا لیکن گھر کے باقی کسی افراد کے چہرے پہ اس نے کچھ خاص اداسی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ سوائے سکندر کے ۔۔۔۔ وہ شاید اداس تھا یا پھر سنجیدہ وہ سمجھ نہ سکی لیکن اس نے دوبارہ سکندر کی پہلے کی طرح نا کبھی رعب جھاڑتے دیکھا نہ ہی غرور کرتے نہ کبھی حد سے زیادہ بولتے دیکھا ۔۔۔۔۔ 
وہ پہلے کی طرح خود پر دھیان دینا چھوڑ چکا تھا ۔۔۔ کپڑے دو دو دن تک نہیں بدلتا تھا اور شیو بھی ہفتوں بعد کرتا  ۔۔۔۔ شاید آغا جان کی موت نے اسے توڑ دیا تھا ۔۔۔ یا الیکشن میں ہار نے ۔۔۔۔ بہرحال سکندر میں جو انوکھی اور سب سے بڑی تبدیلی آئی تھی اس نے دوبارہ کبھی اس سے بات نہیں کی ۔۔۔۔ یہاں تک کی جب کبھی ان کا سامنا ہو جاتا وہ ادھر ادھر سے نکل جاتا یا وہ اگر کہیں ہوتی تو وہ اس جگہ کبھی نہ آتا یا وہ کسی ایسی جگہ چلی جاتی جہاں سکندر موجود ہو تو وہ اسی وقت وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا تھا ۔۔۔۔۔ اس کا رویہ بالکل الجھن بھرا تھا ۔۔۔
وہ جب اس گھر سے گئی تو اسی سکندر کو چھوڑ کر گئی تھی جو حکم چلانے والا  ، اور رعب دکھانے والا تھا اور جب لوٹ کر آئی تو یہ ایک نیا انسان تھا ۔۔۔۔۔
 لیکن اسے سکندر سے نفرت ہونی چاہیے تھی ، وہ شکیل الرحمان کا قاتل تھا لیکن وہ اس سے خاص نفرت بھی نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
 گو کہ وہ اس سے بدلہ لے چکی تھی اسے الیکشنز میں ہرا کر اور یہ بدلہ بہت ہی بڑا تھا پھر بھی اسے یوں نفرت ختم نہیں کرنی چاہیے تھی ۔۔۔۔۔۔ سعدیہ بیگم کو آغا جان کی زندگی میں جو ٹینشن تھی اب وہ ختم ہو چکی تھی ایک بار پھر انہوں نے خود کو اسی گھر کا حصہ سمجھنا شروع کیا تھا اور گھر کے معاملات میں حصہ لینے لگی تھیں گو کہ تائی ابھی تک ناراض تھیں لیکن سعدیہ بیگم کو اب ان کی ناراضگی سے فرق نہیں پڑنا تھا ۔۔۔۔۔
ایک دن وہ کمرے میں امی سے باتیں کر رہی تھی جب ثوبیہ بھابھی نے آ کر اس سے کہا کہ تایا جان انہیں بلا رہے ہیں ۔۔۔ وہ امی کے ساتھ نیچے گئی جہاں تایا اور سکندر بھی بیٹھا تھا ۔۔۔۔ 
" آئیں بیٹھیں بھابھی ۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم کچھ جھجھکتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔ سکندر سنجیدگی سے سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔
" یہ لیں " انہوں نے کچھ کاغذات ان کی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔
" یہ آپ لوگوں کا حصہ ہے ۔۔۔۔ " اس نے کچھ حیرانگی سے کاغذات لے لئے تھے ۔۔۔۔
" عشرت ہمیں آپ کا حصہ نہیں چاہیے تھا وہ بس آغا جان کی ضد تھی ۔۔۔ ہم نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پرانے خیالوں میں قید رہے ۔۔۔۔ آپ لوگوں چاہیں تو اپنا حصہ بیچ دیں چاہیں تو یہیں رہیں ۔۔۔۔ " 
انہوں نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔ تب امی نے کہا وہ اپنا حصہ بیچنے کی بجائے وہیں رہنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ اسے تایا جان کے بدلے ہوئے انداز نے کافی حیران کیا تھا اور ان کے انکشاف نے بھی کہ انہوں نے آغا جان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی ۔۔۔۔ یعنی کہ تایا جان بھی ان کے پرانے خیالات سے کسی حد تک تنگ تھے ۔۔۔۔ 
سعدیہ بیگم بہت خوش تھیں اور پہلی بار انہوں نے عشرت کو بہت پیار سے گلے لگایا تھا شاید وہ آواز نہ اٹھاتی تو ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔۔۔
____________________________________________
تحریر ناصر حسین 
____________________________________________
جب وہ کچن میں گئی تھی اپنے لئے چائے بنانے اسی وقت سکندر بھی کچن میں آیا تھا لیکن اسے دیکھ کر فورا واپس پلٹ گیا ۔۔۔ اور وہ اس کے رویے پر حیران رہ گئی وہ ایسا کیوں کر رہا تھا ۔۔۔ آخر وہ پہلے کی طرح اس سے یہ کیوں نہ کہتا تھا دوپٹہ سر پر لو یا مجھ سے نظریں جھکا کر بات کیا کرو وغیرہ وغیرہ  ۔۔۔۔۔  
" اور میں اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ تمہارا دشمن ہے عشرت کبھی نہ بھولو ۔۔۔۔ " اس نے خود کو یاد دلایا ۔۔۔۔ چولہا جلا کر اس نے چائے کی کیتلی رکھ دی ۔۔۔ تائی بھی کچن میں شاید رات کا کھانا بنانے آئی تھی ں اور اسے نظر انداز کر کے فریج سے کچھ نکالنے لگیں ۔۔۔ وہ ان سے ابھی تک غصہ تھیں ۔۔۔ اور وہ بھی ان کی ناراضگی کو خاص اہمیت نہیں دیتی تھی ۔۔۔لیکن پہلی بار ان کو دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا اب یہ دوریاں ختم ہونی چاہئیں اس لئے اس نے پہل کی تھی ۔۔۔۔
" چائے پیئں گی تائی " 
تائی نے حیرانی سے اسے دیکھا  ۔۔۔ 
" نہیں " انہوں نے غصے سے جواب دیا ۔۔۔ 
" پی لیں میں بہت اچھی چائے بناتی ہوں ۔۔۔ " وہ ان کو منانے کے لئے مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
" تم صرف بے وقوف بنا سکتی ہو ۔۔۔۔ " 
ان کا غصہ کم نہ ہوا ۔۔  وہ کریلے کاٹ رہی تھیں  ۔۔۔۔ 
" اب ایسی بھی کیا ناراضگی تائی " 
" میرا دل کرتا ہے تمہاری شکل بھی نہ دیکھوں کبھی  " 
وہ دانت پیس کر بولیں ۔۔۔۔
" آپ انم کی وجہ سے ناراض ہیں  ؟ " 
تائی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔
" اگر آپ اس وجہ سے ناراض ہیں تو آپ بہت زیادتی کر رہی ہیں تائی ۔۔۔ انم کو اس گھر سے بھگانا میرا احسان تھا گناہ نہیں ۔۔۔۔۔ " 
تائی نے ہاتھ روک کر حیرت سے اسے دیکھا وہ بھی چائے چھوڑ کر پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو گئیں ۔۔۔۔
" آپ  دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا آغا جان اور آپ لوگ صحیح کر رہے تھے انم کے ساتھ ۔۔۔۔ ایک ایسے لڑکے سے شادی کر رہے تھے جسے اس نے دیکھا تک نہیں تھا اور وہ نشہ بھی کرتا تھا یہ مجھے بعد میں پتا چلا ۔۔۔۔۔ انم آپ کی سگی بیٹی تھی ۔۔۔ کیا ایک ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کر سکتی ہے ۔۔۔۔  " 
تائی خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی ۔۔۔۔۔
" آپ جانتی ہیں میں صحیح کہہ رہی ہوں آپ یہ بھی جانتی ہیں انم کو اس دلدل سے نکال کر میں نے اچھا کیا تھا پھر بھی آپ کی انا آپ کی ضد نہیں مانی ۔۔۔۔ آپ سوچیں ایک نشہ کرنے والے کے ساتھ کیا انم خوش رہ سکتی تھی یا آپ خوش رہ سکتی تھیں ۔۔۔ صرف اس لئے کہ وہ آغا جان کا فیصلہ تھا اور آپ کبھی ان کے فیصلے کو رد  نہیں کر سکتی تھیں اس لئے انم کو جہنم میں دھکیل رہی تھیں ۔۔۔۔۔  " 
تائی کی آنکھوں سے دو آنسو کے قطرے گرے تھے اس نے اپنا ہاتھ تائی کے ہاتھ پر رکھا تھا ۔۔۔۔
" یہ وہ زمانہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی بیٹیاں بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں کہ آپ انہیں کسی کو بھی دے دو ۔۔۔۔ " 
وہ انہیں نرمی سے سمجھا رہی تھی ۔۔۔۔۔
" میں مجبور تھی اگر آغا جان کے فیصلے کے خلاف جاتی تو وہ مار دیتے مجھے اور تمہارے تایا طلاق دے دیتے مجھے ۔۔۔۔ " 
تائی نے پہلی بار روتے ہوئے انکشاف کیا  ۔۔۔۔
" دوسروں کو مارنے والا آج مٹی تلے سو رہا ہے تائی ۔۔۔ اب آپ آزاد ہیں  ۔۔۔۔ اپنے بچوں کے فیصلے آپ اپنی مرضی سے کر سکتی ہیں ۔۔۔۔۔ اب انم کو گھر لے آئیں اسے قبول کریں ۔۔۔۔ آغا جان ابھی نہیں رہے تایا باپ ہیں انم کے وہ ضرور قبول کریں گے  " 
" کیا تمہاری بات ہوتی ہے انم سے ۔۔۔۔ " 
تائی نے بے تابی سے پوچھا ۔۔۔۔
" ہاں تقریبا ہر دوسرے دن ۔۔۔۔ اور وہ پریگننٹ بھی ہے " 
تائی روتے روتے مسکرائیں ۔۔۔۔
" میری اس سے بات کراو ۔۔۔ عشرت ۔   " 
" چلیں کمرے میں ۔۔۔۔ " 
وہ دونوں کچن سے نکل کر کمرے میں آئیں  ۔۔۔  
" آپ جب اس کو اتنا خوش دیکھیں گی تو آپ کی ساری شکایتیں دور ہو جائیں گی ۔۔۔۔ " 
اس نے تائی کو وڈیو کال ملا کر دی وہ گھنٹوں انم کے ساتھ باتیں کرتی رہیں ۔۔۔ روتی رہیں ۔۔ شکوے شکایتیں کرتی رہیں  ۔۔۔۔ یہی حال انم کا بھی تھا ۔۔۔ وہ وہیں صوفے پر بیٹھی رہیں ۔۔۔۔ کال کے بعد بھی وہ تائی کے پاس رہی ان سے باتیں کرتی رہی ۔۔۔ ایک بار سکندر بھی اچانک ان کے کمرے میں آیا تھا لیکن اسے کمرے میں دیکھ کر اور اپنی ماں کے ساتھ ہنستے دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔۔۔۔۔
" آو سکندر " 
" میں بعد میں آتا ہوں ۔۔۔۔ " سنجیدگی سے کہہ کر وہ باہر نکل گیا اس نے سوچا نہیں تھا وہ بھی وہاں ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ اگلی بار پورچ میں وہ دونوں ٹکرائے تھے اور وہ سنجیدگی سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔ اور ایک دن جب وہ لان میں بیٹھا تھا تائی کے ساتھ تو وہ تائی کے لئے چائے بنا کر گئی لیکن وہ فورا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔ اسے تجسس تھا آخر اس کے اس رویے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے  ۔۔ کیوں کر رہا ہے وہ ایسا ۔۔۔۔۔
البتہ اس دن کے بعد تائی کے ساتھ اس کی اور سعدیہ بیگم کی ساری ناراضگیاں ختم ہو گئیں اور وہ ایک بار پھر پیار محبت سے رہنے لگیں ۔۔۔۔  اور ایک نئی بات یہ ہوئی تھی کہ تائی نے تایا کے سامنے انم کو گھر لانے کی بات کی تھی جس پہ نہ وہ غصہ ہوئے نہ انہوں نے کوئی ناراضگی دکھائی بس اتنا کہا ۔۔۔۔
" جو تمہاری مرضی ۔۔۔۔ " 
______________________________________
میرا دل میرا نہیں  
Coming soon , 
__________________________________________
وہ رات اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے کر آئی تھی  ، زندگی کے کچھ پہلو کتنے الگ ہوتے ہیں کچھ چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں حقیقت میں کتنی مختلف ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔
کبھی کبھی انسان چہروں کو پڑھنے میں غلطی کر جاتا ہے سمجھ میں نہیں آتا جو انسان کے چہرے پر لکھا ہے اس کے دل میں کچھ برعکس بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ زویا کی سالگرہ  پہ آئی ہوئی تھی ۔۔۔ سعدیہ بیگم نے اسے پہلے ہی وارن کر دیا تھا کہ دس بجے سے پہلے واپس آ جانا لیکن جلدی کی کوشش میں بھی بارہ بج گئے ۔۔۔۔۔۔ اب اسے گھر سے نکلنے میں وہ پہلی جیسی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔ سکندر نے تو اس کی زندگی میں دخل دینا ہی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔
بارہ بجے بڑی مشکل سے زویا سے جان چھڑا کر باہر آئی ۔۔۔ گھر وہ پہلے ہی کال کر چکی تھی کہ کوئی اسے پک کرنے آئے ۔۔۔۔ اور اب آدھا گھنٹا گزر چکا تھا اب تک کسی کو آ جانا چاہئے تھا اسے وہاں سے لے جانے کے لئے ۔۔۔۔۔۔
لیکن اسے لینے سکندر آئے گا یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔  اس نے گاڑی لا کر اس کے بالکل پاس روک دی ۔۔۔ لیکن کہا کچھ نہیں وہ کچھ پل اسے دیکھتی رہی جو سنجیدگی سے منہ دوسری طرف کر کے بیٹھا تھا پھر گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سنجیدگی سے گاڑی سٹارٹ کر دی ، وہ یہ ہرگز نہیں بھول سکتی تھی یہ وہی شخص تھا جس سے وہ شدید نفرت کرتی تھی جس نے شکیل الرحمان کا ایکسیڈنٹ کروایا تھا ، بڑی سنجیدگی اور خاموشی سے گاڑی چلاتا وہ شخص ایک قاتل تھا جسے دیکھ کر ہی اسے نفرت ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس نے چہرہ باہر کی طرف موڑ لیا ۔۔۔ سڑک پر جلنے والی روشنیاں اب قدرے کم ہونے لگی تھیں ، وہ سر گاڑی کی پشت پر ٹکا کر بیٹھ گئی اور ہاتھوں کی چوڑیوں سے کھیلنے لگی ۔۔۔ عام روٹین میں وہ چوڑیاں نہیں پہنتی تھی آج خاص زویا کی سالگرہ کے فنکشن کے لئے پہنے تھے ۔۔۔۔۔۔
اس نے پانچ منٹ کے سفر میں دوسری بار نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا لیکن اس کی طرف سے ایسا کوئی رسپانس نہیں تھا کہ اس کے ساتھ گاڑی میں کوئی اور بھی سفر کر رہا ہے ۔۔۔۔  ابھی گھر تک کافی سفر باقی تھا اس لئے وہ آنکھیں بند کر کے سر ٹکا کر بیٹھ گئی ، دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا لیکن وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں اور دماغ بنجر ہو چکی تھیں وہ کافی تھک چکی تھی اب اسے آرام کی ضرورت تھی  ۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا بیک ویومر سے صرف اس کے سنجیدہ ہونٹ نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔ اس نے آنکھیں ایک بار پھر بند کر دیں ۔۔۔۔ گاڑی اب روڈ سے ہٹ کر قدرے سنسان راستے پر نکل پڑا تھا جہاں ٹریفک کی آمد کم تھی ۔۔۔۔ وہ سکون سے آنکھیں بند کئے لیٹی تھی بنا اسے کوئی اہمیت دیئے جیسے وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا لیکن اچانک ایک بہت بڑا جھٹکا کھا کر گاڑی رک گئی ۔۔۔۔ اس نے تیزی سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا وہ گاڑی میں چابی گھما رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔ وہ بار چابی گھما کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن چار پانچ دفعہ کوششوں کے باوجود بھی گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ 
یہ چیز اس کے لئے غیر متوقع تھی اپنی طرف سے وہ یہی سمجھی کہ شاید پیٹرول وغیرہ یا انجن میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہو ۔۔۔۔ کچھ وقفے کے بعد وہ ایک بار پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پچھلی تمام کوششوں کی طرح اس کی یہ کوشش بھی بے کار گئی ۔۔۔۔۔وہ گاڑی کی کھڑکی کھول کر باہر نکلا ۔۔۔۔ اور جا کر بونٹ کھولنے لگا وہ ہیڈ لائٹس کی روشنی میں اس کے سنجیدہ بھینچے ہوئے ہونٹ دیکھ سکتی تھی ۔۔۔۔ وہ بونٹ کھولے کافی دیر تک انجن کے ساتھ الجھا رہا لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔۔۔۔ وہ اسے وہیں کار میں سے دیکھ رہی تھی اور اب تھوڑی بہت گھبراہٹ بھی ہونے لگی تھی اسے ۔۔۔۔۔۔
وہ زیادہ دیر اندر نہ بیٹھ سکی اور باہر نکل آئی اس کے پاس ۔۔۔۔ 
" کیا ہوا  ؟ " یہ ان دونوں کے درمیان پہلا جملہ تھا ۔۔۔۔
" شاید انجن میں کوئی خراب ہو گئی ہے " 
وہ سنجیدگی سے انجن کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
اس نے اکتا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ جہاں وہ کھڑے تھے وہ ایک سنسان موڑ تھا ، جہاں ہر دس منٹ بعد بھی بڑی مشکل سے کوئی ٹریفک گزرتا ۔۔۔۔۔ سامنے سٹریٹ لائٹس تھیں اور ایک لائٹ کے نیچے لکڑی کی ایک بنچ رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
" رہنے دو تم سے نہیں ہوگا کسی میکنک کو بلاو " 
اس نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا ضرور تھا لیکن جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔
" کیوں ٹائم ویسٹ کر رہے ہو ، جب تمہیں معلوم ہے تم سے نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔ " 
اب کی بار وہ کوفت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔
" میں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ " وہی سنجیدہ جواب 
وہ اب ایک بہت بڑے پلاس کا استعمال کر رہا تھا لیکن وہ جانتی تھی اس سے ہونا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے تم بناتے رہو ۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ٹائم ویسٹ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ جا کر کوئی ٹیکسی ڈھونڈتی ہوں ۔۔۔ " 
وہ غصے سے بولی ۔۔۔۔
" اتنی رات کو کوئی ٹیکسی نہیں ملے گی " اس نے مدھم مگر تحمل بھرا جواب دیا ۔۔۔۔۔
" تو میں پیدل چلی جاوں گی لیکن یہاں تمہارے ساتھ بے کار میں ٹائم نہیں ضائع کر سکتی ۔۔۔۔۔ " 
وہ کسی بچے کی طرح ضد کرتے ہوئے بولی اور جانے کے لئے مڑی جب سکندر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔ 
" ضد نہ کرو ۔۔۔۔ تم جانتی نہیں ہو اتنی رات کو کتنا خطرہ ہو سکتا ہے " 
وہ ایک بار سنجیدہ تحمل بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
" ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔ " 
سکندر نے ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔۔۔
" تم سمجھتے کیا ہو خود کو ۔۔۔ جو تم کہو گے میں وہی کروں گی یہ میری زندگی ہے میں جو چاہے کروں ۔۔۔۔۔ " 
وہ اپنے ازلی منہ پھٹ لہجے میں بولی  ۔۔۔۔ بیچ کے سارے فاصلے جیسے ختم ہو گئے وہ اس کے لئے وہی سکندر تھا جو شکیل الرحمان سے شادی سے پہلے تھا جس سے وہ نفرت کرتی تھی اور اس نفرت کا برملا اظہار بھی کرتی تھی ۔۔۔۔۔
" میں تمہیں اس طرح نہیں جانے دے سکتا " 
اس کا چہرہ دوسری طرف تھا لیکن آواز تیز ہو چکی تھی ۔۔۔
" تم ہوتے  کون ہو مجھے روکنے والے ۔۔۔۔۔ تم ایک قاتل  ہو ۔۔۔ تم نے شکیل الرحمان کا قتل کیا ہے ۔۔۔۔ " 
جانے یہ کون سا موقع تھا یہ بات کہنے کا ، لیکن جو بات اس کے دل میں تھی وہ زبان پر آ گئی ۔۔۔۔ وہ مزید اس بات کو دل میں نہ رکھ سکی ۔۔۔۔ سکندر بے یقینی اور حیرت سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔
" تمہیں کیا لگا تم قتل کرو گے اور بچ جاو گے ۔۔۔۔ چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں ۔۔۔۔ " 
وہ اس پر چلائی ۔۔۔۔۔  سکندر نے اس کی باتوں پر غور کرنا چھوڑ دیا وہ بونٹ اٹھائے کچھ جوڑنے میں مصروف تھا ۔۔۔
" تمہیں حساب دینا ہوگا ۔۔۔۔  " 
وہ اس کے پاس کھڑی چلا رہی تھی لیکن وہ ایسے بونٹ میں مصروف تھا جیسے اسے سن ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔
" تم ایک گھٹیا انسان ہو ۔۔۔۔ میں تمہاری شکل بھی کبھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔  نفرت ہے مجھے تم سے ۔۔۔۔ " 
وہ زور سے چلائی ۔۔۔۔ 
سکندر اچانک غصے میں آ گیا ۔۔۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا پلاس گاڑی کے فرنٹ شیشے پر مار دیا ۔۔۔۔ جس سے شیشہ بری طرح ٹوٹ گیا ۔۔۔۔۔ 
" جانتا ہوں ۔۔۔ یہ بات یاد ہو گئی ہے مجھے بار بار بتانے کی ضرورت نہیں ہے   " 
وہ اتنی زور سے چلایا کہ وہ اس کی آواز کے سامنے کچھ بول ہی نہ سکی ۔۔۔۔ اور آنکھیں کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو شاید زندگی میں پہلی بار اتنے غصے میں آیا تھا ۔۔۔۔۔
" نکل جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔ " 
سکندر نے پاس پڑی کچھ پیچ کس اٹھا کر اس کی طرف زور سے پھینکے وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی ۔۔۔۔۔
" چلی جاو میری زندگی سے بہت دور۔۔۔۔  اور پھر کبھی لوٹ کر مت آنا ۔۔۔۔۔ " 
وہ ہذیانی انداز میں چلایا ۔۔۔ وہ آنکھیں کھولے صدمے اور حیرت سے اس کا نیا روپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس قدر جنونی وہ پہلی بار ہوا تھا ۔۔۔۔۔ پھر اس نے زور سے ٹوٹے ہوئے شیشے کو مکا مارا اس کا ہاتھ بری طرح زخمی ہو گیا ۔۔۔ خون کی تیز دھار بہنے لگی اور وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔بنا کسی حرکت کے ایک مجسمے کی طرح ۔۔۔۔ اب وہ رو رہا تھا ۔۔۔ زور زور سے ۔۔۔۔ 
وہ اسے روتے ہوئے بھی پہلی بار دیکھ رہی تھی کیا مرد روتے بھی ہیں وہ بھی سکندر فیروز جیسا مضبوط مرد ۔۔۔۔
" تم مجھے برباد کر دینا چاہتی تھیں دیکھ لو میں ہو گیا برباد ۔۔۔۔۔  اب میرے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا ۔۔۔میں ہار گیا تم سے ۔۔۔۔ " 
وہ روتے روتے چلا رہا تھا ۔۔۔۔
 وہ کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔۔۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھا ۔۔۔ پھر روتے روتے اسے خود ہی جیسے احساس ہوا تھا اس نے ہتھیلی سے آنکھیں رگڑیں ۔۔۔ اور ٹھنڈی سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ اس کے دوسرے ہاتھ سے مسلسل خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ پھر اس نے گاڑی سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گیا ۔۔۔۔۔  پھر جا کر وہ پاس رکھی لکڑی والی میز پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ وہ ابھی تک اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی لیکن وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
بنچ پر بیٹھے بیٹھے اسے کافی وقت ہو گیا تو اس نے خود ہی بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
" مجھے یاد ہے پہلی بار جب امی نے مجھے بتایا تھا عشرت تمہاری ہے ، میں تبھی سے تمہیں اپنی ملکیت سمجھنے لگ گیا تھا ، میں یہ سوچنے لگا تھا کہ تم صرف میری ہو ۔۔۔۔ بچپن کا وہ عہد بڑے ہو کر بھی نہیں بھول پایا ، ہمیشہ سے تمہیں اپنی چیز سمجھا ۔۔۔۔ لیکن جب میں امریکہ سے واپس لوٹا تب تم بالکل بدل چکی تھیں ، تمہاری نظروں میں رشتوں کے مطلب بدل چکے تھے ۔۔۔ تم بغاوت سیکھ چکی تھیں تمہیں نفرت کرنا آ گیا تھا ۔۔۔۔۔  میں نے تب بھی یہی سمجھا تم میری ہو ۔۔۔۔۔ " 
اس کی آواز آہستہ ہو چکی تھی ، بھرائی ہوئی ۔۔۔ وہ ایسے بتا رہا تھا جیسے کوئی کہانی سنا رہا ہو ۔۔۔ اس کا منہ نیچے کی طرف تھا ۔۔۔ وہ رو بھی رہا تھا ۔۔۔ اور وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
" تم میری باتوں کو غلط سمجھنے لگ گئیں ، میرے غصے کو نفرت سمجھنے لگیں ۔۔۔۔ میں تم سے محبت کرتا تھا عشرت ۔۔۔۔۔ میں تم سے نفرت کیسے کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔   تم نے مجھے آغا جان سے میچ کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔  تمہیں لگتا تھا میں ان کی کاربن کاپی ہوں اور اس لئے تم نے مجھ سے بھی نفرت کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ یہ جانے بنا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ " 
وہ بڑی مشکل سے خود کو گرنے سے روک پائی ، وہ پہلی بار اپنی محبت کا انکشاف کر رہا تھا ۔۔۔۔
" جسے تم میرا چھوٹی سوچ اور پرانے خیالات سمجھتی رہیں وہ میری محبت تھی ، اگر میں تم سے کہتا تھا دوپٹہ سر پر لو تو کیا غلط کہتا تھا میں بس یہ چاہتا تھا تمہیں میرے علاوہ اور کوئی نہ دیکھے ۔۔۔۔ ہر مرد یہی چاہتا ہے میں نے کون سے انوکھی خواہش کر دی  ۔۔۔۔ " 
وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اس کے لئے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
" میں شاید باقی مردوں جیسا نہیں تھا ، مجھے کبھی محبت کا اظہار کرنا نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ میں غصے والا تھا ۔۔۔ لیکن میں تم سے دیوانوں کی طرح محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ تم میری سوچ کو غلط کہہ سکتی ہو ، مجھے پرانے خیالات کا کہہ سکتی ہو لیکن میری محبت بالکل سچی تھی ۔۔۔۔۔  تمہیں میرے ساتھ اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے تھی آخر کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا ۔۔۔۔ " 
وہ اب ہچکوں میں رو رہا تھا ۔۔۔۔ اور اس کے لئے کھڑے رہنا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
" جتنی نفرت تم نے مجھ سے کی ہے اتنی نفرت اگر کسی پتھر سے کرتیں تو وہ بھی ٹوٹ جاتا ۔۔۔۔ دیکھ لو آج تمہارے بے وجہ نفرت نے مجھے کتنا نقصان پہنچایا  ، مجھے کتنا کچھ کھونا پڑ گیا ۔۔۔
 تم سے محبت کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا گھاٹا تھا ۔۔۔۔۔۔  میں مانتا ہوں آغا جان تھوڑے پرانے خیالات کے تھے ان کے کچھ اصول غلط تھے لیکن تھوڑا بہت سمجھوتہ تمہیں بھی کرنا چاہئے تھا ۔۔۔ تم سنجیدگی سے سب سے باہر نکل سکتیں تھیں لیکن تم مقابلے بازی پر اتر آئیں ۔۔۔۔ تمہاری شکایتیں ، تمہارے اختلافات آغا جان کے ساتھ تھے پھر تم نے مجھے کیوں برباد کر دیا ۔۔۔۔۔ میں شروع دن سے جانتا تھا تمہیں گھر کے قید خانے والا ماحول نہیں پسند ۔۔۔ اس لئے ۔۔۔  تو شادی کے بعد میں تمہیں ہمیشہ کے لئے یو کے لے جانے والا تھا ، ایک ایسی دنیا جہاں تم خوش رہو ۔۔۔۔۔  میں نے تو پاسپورٹ بھی بنوا لیا تھا تم سے ہی صبر نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔  تم مجھے اتنا برا سمجھتی تھیں کیا میں تمہیں اتنا برا لگتا تھا ؟ تم کیا سوچتی تھیں کیا میں تم پہ ہاتھ اٹھاوں گا یا دوسرے مردوں کی طرح تمہاری عزت نہیں کروں گا ۔۔۔ تم نے ایسا کیسے سوچ لیا ۔۔۔۔ زندگی میں صرف ایک بار میں نے تم پہ ہاتھ اٹھایا تھا جب تمہاری وڈیو دیکھی تھی اس دن مجھے بہت غصہ آیا تھا ، لیکن تم پہ ہاتھ اٹھانے کے بعد میں ساری رات سو نہ سکا اور اگلے دن میں نے اپنا ہاتھ بلیڈ سے کاٹ دیا ۔۔۔۔۔۔" 
اس نے کچھ سوچنے کی کوشش کی اور اسے یاد آیا اس دن واقعی اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی ، جسے وہ یک سمجھی کہ اس کی کسی کے ساتھ لڑائی ہو گئی تھی  ۔۔۔۔
" جب تمہیں آغا جان نے تہہ خانے میں بند کر دیا تھا تو تمہیں کیا لگتا ہے میں نے ان سے کچھ نہیں کہا ، کتنی متیں کیں میں نے ان سے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنے حکم سے مجھے دبا دیا ۔۔۔۔ جب تم تہہ خانے میں جاگ رہی تھیں تب کوئی باہر بھی سو نہیں پا رہا تھا ۔۔۔ کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہ تھا  " 
اسے یاد آیا ، جب وہ تہہ خانے میں تھی تو کوئی سایہ روازنہ رات کو اسے نظر آتا جسے وہ چوکیدار سمجھ رہی تھی لیکن آج اسے پتا چلا وہ کون تھا ۔۔۔۔۔۔ 
" ہر سچ وہ نہیں ہوتا جو ہم دیکھتے یا سنتے ہیں کچھ چیزوں کو سمجھنا بھی پڑتا ہے  ۔۔۔۔ تم نے کہا تھا ' میں تمہیں وہ درد جاوں گی کہ ساری زندگی یاد رکھو گے ' اور تم مجھے وہی درد دے کر گئیں تھیں ، تم نے نکاح سے انکار کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا اس نکاح کے ساتھ میرے کتنے ارمان جڑے ہیں ، کتنے برسوں کا انتظار تھا اور تم نے تو یہ بھی نہ سوچا تمہارے انکار کے بعد میں دنیا کے سامنے کیسے سر اٹھا پاوں گا ۔۔۔۔۔تم نے تو کچھ بھی نہ سوچا ۔۔۔۔ تم بس مجھے اور آغا جان کو ہرانا چاہتی تھیں ۔۔۔۔ " 
وہ بولتے بولتے کچھ پل کے لئے خاموش ہوا ۔۔۔ پھر ٹشو نکال کر آنکھیں صاف کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے چلتی ہوئی اس کے پاس بنچ کے دوسری طرف کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اس رات کے نئے انکشافات نے اسے توڑ دیا تھا ۔۔۔۔ 
" تم نے اس رات خود پہ گولی چلاتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ گولی میرے دل پہ لگی تھی ۔۔۔ تم مجھے مار دیتیں مجھے دکھ نہ ہوتا لیکن تم نے خود کو کیوں سزا دی ۔۔۔ میں جہاں اتنا سب برداشت کر رہا تھا وہ ایک گولی بھی برداشت کر لیتا ۔۔۔۔۔ میری جان چھوٹ جاتی تمہاری نفرت سے ۔۔۔۔ تم نے کہا تھا میں بزدل ہوں اس لئے گولی نہیں چلا سکتا ، میں بزدل نہیں تھا وہ میری محبت تھی ۔۔۔۔  اور تم نے میری زندگی میں مجھے جیتے جی مار ڈالا جب تم مجھے ہرانے کے لئے اپنی عمر سے دو گنا بڑے آدمی سے شادی کر کے آ گئیں کیا تم نے سوچا اس دن مجھ پر کیا قیامت گزری ۔۔۔ میں کن کن سڑکوں پر روتا رہا ہوں ۔۔۔۔ میں نے کتنی بار خودکشی کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔  اس دن تم نے مجھے توڑ دیا تھا ۔۔۔۔ اور تم غلط تھیں تم خود ہی خود سارے اندازے لگاتی ہو اور اپنے ذہن میں غلط فہمیاں پالنے لگتی ہو تمہیں آج بھی لگتا ہے شکیل الرحمان کا ایکسیڈنٹ میں نے کروایا تھا ۔۔۔۔ تم کتنی بدگمان ہو مجھ سے ۔۔۔۔ وہ ایکسیڈنٹ آغا جان نے کروایا تھا ، اور تم نے اس کا بدلہ بھی مجھ سے لیا تھا الیکشن سے دو دن قبل میری وڈیو وائرل کر دی لیکن الیکشن ہارنا میری ہار نہیں تھی میں تو بہت پہلے سے ہار چکا تھا  ۔۔۔۔۔۔۔
میری ہار وہ نہیں تھی جب الیکشن ہارا تھا میری ہار وہ تھی جب تم مجھے چھوڑ کر چلی گئیں  ۔۔۔  
تم نے ہمیشہ میرے رویئے کو یاد رکھا ۔۔۔ کیا کبھی اپنے رویے پر بھی غور کیا تم نے ۔۔۔۔ شادی والی رات تم نے انم کو گھر سے بھگایا ۔۔۔۔۔  تم نے بھری محفل میں نکاح کی قبولیت سے انکار  کر دیا ، تم نے مجھے درد دینے کے لئے خود پر گولی چلائی  ۔۔۔۔ ایک ساٹھ سال کے انسان سے شادی کر کے آ گئیں ۔۔۔۔ الیکشن سے دو دن قبل میری وڈیو وائرل کی ۔۔۔۔ سچ بتاو کیا تمہارا رویہ نارمل تھا کیا تم غلط نہیں تھیں ۔۔۔۔۔   عشرت ۔۔۔۔۔۔۔ تم اگر بہت زیادہ بھی سوچو تب بھی تمیں صرف ایک تھپڑ مارنے کے علاوہ میں نے کبھی تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔  اور یہ بات تم بھی جانتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ " 
اس نے سر اٹھا کر سکندر کو دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔۔۔ اس نے بھی پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا وہ آنکھیں جھوٹ نہیں بول رہی تھیں اور وہ کیسے جھوٹ کو سچ مان کر جیتی رہی ۔۔۔۔ اب وہ کیسے نظریں ملا پائے گی اس شخص سے اور کیسے سامنے کرے گی خود کا ۔۔۔۔۔۔
" یہ تمہارے اور آغا جان کی لڑائی تھی لیکن سب سے زیادہ سزا مجھے ملی ، میں تو خواہ مخواہ ہی مارا گیا تم لوگوں کی نفرت میں ۔۔۔۔۔ 
آغا جان نفسیاتی مریض تھے ، ان کے کچھ خیالات واقعی پرانے اور دقیانوسی تھے ان کے کچھ اصول بھی غلط تھے  ، انہیں ہمیشہ سے حکمرانی کرنے کی عادت رہی تھی اور اپنی یہ عادت وہ شہر میں بھی ساتھ لے آئے تھے ۔۔۔۔ اور وہ ایک ہار برداشت نہیں کر سکے اور خود کشی کر لی ۔۔۔ لیکن ہم سب انسان ہیں اور انسانوں کی دنیا میں رہنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔۔۔ جینے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں جنہیں ہم  پنجرہ ، یا قید کہہ کر باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ وہ اصول ہمیں جینے کی وجہ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور میری نظروں میں نارمل تو تم بھی نہیں تھیں ، چھوٹے سے اختلافات کو انا کا مسئلہ بنا کر تم نے خود کو کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے کتنوں کی زندگیاں الجھا دیں ۔۔۔۔  کیا ہو جاتا اگر تم تھوڑا صبر یا سمجھوتہ کر لیتیں ۔۔۔۔
 تمہیں ان کو ہرانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ تمہیں ۔۔۔ اور آخر میں تم دونوں ہی ہار گئے ۔۔۔۔  کیا تم نے دیکھا آخری بار ان کا چہرہ  ۔۔۔ ان کی ساری نفرت دنیا میں ہی رہ گئی وہ سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔۔۔ تمہارے ہاتھ کیا لگا ؟ تم بھی تو اتنی ہی خالی رہ گئیں ۔۔۔۔۔ کتنا نقصان کر دیا تونے خود کا اور ہم سب کا ۔۔۔۔۔۔ نفرت کے راستے میں صرف ہار ملتی ہے جیتنے کے لیے محبتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔۔۔۔  " 
وہ بول رہا تھا اور اس نے جانے کب سنتے سنتے اپنا سر اس کے کاندھے پر رکھ دیا ۔۔۔۔ 
" تمہیں مجھ سے اتنی محبت تھی ، تمہیں ایک بار مجھے بتانا چاہئے تھا تم جانتے تھے میں اتنی ذہین لڑکی نہیں ہوں جو آنکھیں دیکھ کر محبت پہچان لوں ۔۔۔۔ " 
وہ روتے روتے کہہ رہی تھی اور اس نے سکندر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔۔
" عشرت محبت کا اظہار ڈھول بجا کر نہیں کیا جاتا بس محبت تھی تو بس تھی  ۔۔۔ اب میں سب کے سامنے اعلان نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔ تمہیں خود سمجھنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ میری پوری زندگی کتاب کی طرح ہے جس صفحے کو کھول کر دیکھ لو وہاں صرف تم ہو گی ، میں نے اپنی زندگی میں تم سے علاوہ کسی سے محبت نہیں کی  " 
اس نے سکندر کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ، واقعی محبت کرنے والے ڈھول نہیں بجاتے کچھ چیزوں کو سمجھنا پڑتا ہے ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ 
اس کی اتنی نفرت کے باوجود بھی وہ شخص اس سے محبت کرنے کے لئے مجبور تھا ۔۔۔۔ 
اس کے پاس بیٹھے شخص کی ہر بات سچ میں ڈوبی ہوئی تھی اور وہ خود کو اس کے سامنے ایک زرا بھی نہیں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ وہ خود کو دنیا کی احمق ترین لڑکی سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔ تھوڑے سے سمجھوتے سے سب کچھ بدل سکتا تھا زندگی کچھ اور ہو سکتی تھی اور وہ اس شخص سے نظریں ملانے کے قابل رہتی ۔۔۔۔۔۔۔ 
وہ خود کے وجود کو سکندر کے سامنے ایک ذرے کے برابر سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ 
وہ اس سے معافی نہیں مانگ سکتی تھی جو وہ کر چکی تھی وہ معافی سے کہیں بڑھ کر تھا ۔۔۔۔ اس نے خاموشی سے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا ، وہ اس کی دھڑکنوں کو سن سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی اپنے بازوں میں اسے بھینچ لیا ۔۔۔۔۔ 
وہ ہوش سنبھالتے ہی اس شخص سے نفرت کرتی آ رہی تھی کبھی نہیں سوچا تھا زندگی میں بچپن سے جس انسان کو قتل کرنے کی خواہش رہی ہو ایک رات ایسی بھی آئے گی جب وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دل کے سامنے بے بس ہو چکی ہوگی ۔۔۔۔۔    آج اس کے زرا سے اظہار نے اسے توڑ دیا۔۔۔ اس کی ساری نفرت تنکے کی طرح بہتی چلی گئی ۔۔۔۔۔ اور وہ سوچ رہی کبھی کبھی انسان کچھ چہروں کو سمجھنے میں کتنی بڑی غلطی کر جاتا ہے ۔۔۔۔۔ صحیح کہا تھا اس نے ، محبت کرنے والے ڈھول لے کر نہیں گھومتے جو ساری دنیا کے سامنے چیخ چیخ کر کہیں ہمیں تم سے محبت ہے ۔۔۔۔جو اظہار نہیں کرتے وہ زیادہ محبت کرتے ہیں ۔۔۔۔
The End 
نفرت کے راستے میں صرف ہار ملتی ہے  جیتنے کے لئے محبتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے  ۔۔۔۔۔
___________________________________________
سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ ان تمام قارئین کا جو اتنے دن تک ' نفرت ' کے ساتھ چلے ، آپ میں سے بہت سارے نئے ریڈرز مجھے نہیں جانتے ہوں گے لیکن پرانے ریڈرز جانتے ہیں کہ سب سے پہلے فیس بک پر میں نے لکھنا شروع کیا تھا ۔۔۔۔۔ آپ میں سے تمام لوگ ' دلہن ' ناول ضرور پڑھ چکے ہوں گے ۔۔۔  جسے پڑھنے کے بعد فیس بک پر ناولز لکھنے کا ٹرینڈ شروع ہوا تھا ۔۔۔۔۔ پھر نئے رائٹرز آ گئے ریڈرز کی پسند بدل گئی تو میں نے کئی سال تک لکھنے سے کنارہ کشی کر لی ۔۔۔۔۔ یہ تو لاک ڈاون کے دنوں میں مصروفیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناول لکھ دیا ۔۔۔ اور آپ لوگوں کے ساتھ شئر کیا ۔۔۔  اپنی طرف سے میں نے کہانی کو دلچسپ اور نیا بنانے کی کوشش کی اور آپ لوگوں نے بھی خوب عزت دی ۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ آج بھی ایسے ریڈرز موجود ہیں جو مجھے پڑھتے اور سمجھتے ہیں  ۔۔۔۔۔   ناول کو دلچسپ بنانے کے لئے بے ہودہ رومانس کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے کہ میرے ناول میں ایک سین بھی رومانس کا نہیں تھا پھر بھی لوگوں کو پسند آئی ۔۔۔۔۔ 
  انشااللہ جلد ہی آپ لوگوں کے لئے کچھ نیا لے کر آوں گا ۔۔۔۔ ارادہ ہے ' میرا دل میرا نہیں ' ناول پوسٹ کروں ۔۔۔۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ میری آئی ڈی کو فالو کریں تا کہ آپ کو ناول کی کوئی قسط ڈھونڈنے میں مشکل نہ ہو اور آپ ان باکس میسج کر کے بھی قسط حاصل کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ امید کرتا ہوں اس ناول میں کے ذریعے آپ لوگوں کو جو سبق دینا چاہتا تھا وہ آپ حاصل کر چکے  ۔۔۔  نفرت زندگیوں میں صرف تباہیاں لاتی ہے ۔۔۔۔  عشرت اور سکندر کی کہانی کیسی لگی آپ کو ۔۔۔۔ تفصیلی رائے دیں کہانی کے بارے میں ۔۔۔۔ 

   2
0 Comments